اب تک کسی بھی گروہ نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم علیحدگی پسندوں پر ہی شبہے کا اظہار کیا جارہا ہے۔
تھائی لینڈ کا جزیرہ سیاحت کے لیے بند
تھائی لینڈ کی پولیس نے ان حملوں میں بین الاقوامی دہشت گردی کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔
خیال رہے کہ ان حملوں کے لیے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیا گیا ہے جبکہ ملک میں ملکہ کی سالگرہ کی تقریبات جاری ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ سیاحتی مقامات پر ہونے والے بم دھماکوں کے نتیجے میں چار افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔
کہاں کہاں دھماکے ہوئے؟
ہوا ہن میں گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ہونے والے چار بم دھماکوں میں دو افراد ہلاک ہوئے۔
سورت تھانی میں دو دھماکوں میں ایک شخص ہلاک ہوا۔
پتونگ اور فوکٹ کے سیاحتی جزیرے پر دو دھماکے ہوئے۔
ترنگ میں ایک دھماکے میں ایک شخص ہلاک ہوا۔
فنگ نگا کے ساحل پر بھی ایک دھماکہ ہوا۔
سیاحتی مقام ہن ہوا میں گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران چار بم دھماکے ہوئے جبکہ جزیرہ فوکٹ میں متعدد دھماکے ہوئے۔ یہ دونوں مقامات سیاحت کے لیے معروف ترین مقامات میں
شامل ہیں۔
پولیس کے مطابق دھماکہ خیز مواد پودوں میں چھپایا گیا تھا جسے موبائل فونز کی مدد سے اڑایا گیا۔
بی بی سی کے جوناتھن ہیڈ کا کہنا ہے کہ گذشتہ 12 سالوں سے مسلح علیحدگی پسندوں کی جانب سے بغاوت کے باعث ایک ساتھ دو دھماکے تھائی لینڈ کے تین جنوبی صوبوں میں تواتر کے ساتھ ہوتے رہے ہیں اور اب تک 6000 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ تھائی لینڈ کے سیاحتی مقامات پر اس قسم کے حملے غیر معمولی ہیں۔
ملک کے وزیراعظم پرائت چن او چوا نے دھماکوں کے بعد میڈیا سے گفتگو عوام کو پرامن رہنے کی تلقین کی اور کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ ان دھماکوں کے پیچھے کون ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا ملک استحکام بہتر معیشت اور سیاحت کی جانب جا رہا ہے، پھر دھماکے کیوں ہو رہے ہیں اور یہ کون کر رہا ہے، آپ کو میری خاطر اس کا پتہ لگانا ہوگا۔
ایک برطانوی شخص مارک گینسفورڈ نے بی بی سی کو بتایا: ’میں میں وہاں قریب ہی ایک بار میں موجود تھا کہ میں نے لوگوں کو چلاتے ہوئے سنا، بم، بم، لیکن میں نے کسی دھماکے کی آواز نہیں سنی۔‘
’میں وہاں سے باہر بھاگا تاکہ کسی کی مدد کر سکوں، میں نے آٹھ سے دس افراد کو زخمی دیکھا۔ پولیس جلد ہی وہاں پہنچ گئی تھی۔‘